کرنول 2؍ ستمبر(اعتمادنیوز) یہ بات واضح ہے کہ مکمل ریاست
آندھراپردیش میں ضلع کرنول مسلمانوں کی آبادی کے لحاظ سے تقسیم ریاست سے
قبل دوسرے نمبرپراورتقسیم ریاست کے بعد پہلے نمبرپرآتاہے۔یاد رہے کہ ضلع
کرنول میں تین سوسے زائدیلمنٹری اوراپرپرائمری اردواسکولس کے علاوہ
22اردوہائی اسکولس کارکردہیں،لیکن اردومیڈیم جونیئرکالج کافقدان تھا،جبکہ
شہرمیں مسلم انتظامیہ کے زیرانتظام چندقدیم ادارے چلائے جارہے
ہیں،تلگواورانگریزی سے تعلیم دی جاتی ہے،لیکن ان کواردوزبان سے کوئی دلچسپی
نہیں ہے،اسی لئے بارہاتوجہ دہانی کے باوجودوہ اردومیڈیم سے لڑکوں کو
انٹرمیدیٹ کی تعلیم دینے سے قاصررہے، مذکورہ اداروں کے سلسلہ میںیوں
کہاجائے توکوئی غلطی نہیں ہوگی کہ \"اقلیتوں کی کالج سے اقلیتوں کی زبان
کااختتام\"۔منجملہ22اردوہائی اسکولس سے دسویں جماعت کامیاب کرنے والے طلباء
کوانٹرمیڈیٹ میں داخلے کی کوئی سہولت نہیں تھی،طلباء کومختلف قسم کی
مشکلات کاسامناتھا،خصوصالڑکوں کے لئے یہ ایک سزاء ثابت ہوتی،دسویں جماعت کی
کامیابی تک طالب علم کی عمرکم سے کم 15سال کی ہوتی ہے،15سال کی عمرکے
بعدحصول تعلیم کے لئے زبان بدلناتکلیف دہ ثابت ہوتاہے،اسی لئے اردومیڈیم سے
دسویں جماعت کی کامیابی کے بعد50%طلباء ترک تعلیم ہوجاتے 50%طلباء
مجبوراتلگویاانگریزی میڈیم سے تعلیم حاصل کرتے،جہاں50%طلباء ناکام ہوجاتے
اور50%طلباء معمولی نشانات سے کامیابی حاصل کرتے ،جواعلی تعلیم کے لئے
ناکافی تصورکئے جاتے۔اس طرح ہزاروں طلباء سڑک پرآچکے تھے،اس سے قبل اولیائے
طلباء میں اس بات کاشعورتک نہیں تھا،لیکن آہستہ آہستہ شعورآتاگیا، دسویں
جماعت کی کامیابی کے بعداردومیڈیم سے حصول تعلیم کے راہیں نہ ہونے کی وجہ
سے والدین بھی اپنے لڑکوں کواردومیڈیم اسکولس میں داخلہ دلوانے سے کترارہے
تھے۔تعلیمی سال1996-97 میں اردومیڈیم اسکولس میں لڑکوں کی تعدادکافی گھٹ
گئی،متعلقہ اسکولس کے اساتذہ کرام سے یہ بات کھل کرسامنے آئی۔اردوزبان کی
ترقی کاببانگ بلندنعرہ لگانے والوں کوملک کی آزادی کے 50سال بعد بھی
اردومیڈیم جونیئرکالج کاخیال تک نہیں آیا۔اردومیڈیم جونیئرکالج کے قیام کے
لئے انجمن ترقئ اردوکرنول کی جانب سے 12؍جنوری1997ء کو آوازاٹھائی
گئی،جوایک تحریک کی شکل دی گئی۔27؍اکتوبر1997ء کوہاؤزکمیٹی کرنول تشریف
لائی، جس کے صدرنشین جناب عبدالرحمن صاحب اورارکان میں جناب ایم
عبدالغفورصاحب،جی ایم وی پرساد،جے چندرسیکھرراؤ،آرگاندھی اور گوڑفریل
رہے۔کلکٹریٹ کانفرنس ہال میں اعلی پیمانہ پرکمیٹی کااجلاس منعقدکیاگیا،جس
میں ضلعی اعلی عہدیداران کے علاوہ شہرکی نامورومعززشخصیتیں،سماجی وسیاسی
جماعتوں کے ذمہ دار حضرات بھی شریک رہے،سبھوں نے اپنے اپنے خیالات
کااظہارکیا۔صدرانجمن ترقئ اردوکرنول کریم اللہ خاں کوبھی اجلاس میں شرکت
کاموقعہ ملا،تمام معززین کے اظہارخیالات کے بعدکریم اللہ خانے کمیٹی کے
صدرنشین سے کچھ بولنے کی اجازت مانگی،صدرنشین نے اجازت دی، انہوں نے
اردومیڈیم سے دسویں جماعت کامیاب طلباء کی پریشانیوں سے کمیٹی کے ذمہ داروں
کوآگاہ کروایا، شہرمیں اردومیڈیم جونیئرکالج قائم کرنے کی درخواست کی،جس
پراس وقت کے رکن اسمبلی حلقۂ کرنول ورکن ہاؤزکمیٹی جناب ایم عبدالغفورصاحب
نے جواب دیتے ہوئے کہاکہ اردومیڈیم جونیئرکالج منظورہوچکی ہے،تعلیمی
سال1997-1998سے شروع کی جائے گی،کمیٹی کے صدرنشین نے تیقن بھی دیاکہ اس
سلسلہ میں حتی الامکان تعاون کیاجائے گا،جس کی خبردوسرے ہی دن
یعنی28-10-1997تاریخ کوتلگواخبارایناڈومیں شائع بھی کی گئی۔لیکن دیکھتے ہی
دیکھتے 1999ء کے عام انتخابات ختم ہوگئے، کالج کے قیام کی دوردورتک کوئی
امیدنظرنہیںآئی ،دوبارہ تلگودیشم پارٹی اقتدارپرآئی۔مذکورہ حکومت نے مسلم
اقلیتوں کی ترقی کے لئے روشنی پیاکیج کااعلان کیا،جس وقت شہرمیں جملہ
23اردومیڈیم اسکولس کارکردتھے،اس وقت کے اردوڈی آئی جناب عبدالرب صاحب کی
ہدایت پرانجمن ترقئ اردوکرنول کی جانب سے شہرکے مضافاتی علاقوں کاسروے کرتے
ہوئے مزید8نئے اردومیڈیم یلمنٹری اسکولس اورایک اردومیڈیم جونیئرکالج کے
قیام کے لئے حکومت کو درخواست دی گئی،جس پرصرف 6ماہ میں اسکولس توقائم
کردئے گئے لیکن چندعمائدین شہرکی کاوشوں کے باعث کالج کی منظوری منسوخ کردی
گئی،چندمعززین شہراپنے مفادکے لئے شروع ہی سے کالج کے قیام میں دیواربن تے
گئے،جن کاسلسلہ آج بھی جاری ہے۔2004ء کے عام انتخابات کے موقعہ پرسابق
وزیرتعلیم مسٹرکے ای پربھاکرسے کالج کے قیام کے لئے نمائندگی کی گئی،انہوں
نے انتخابات کے بعد کالج قائم کرنے کاوعدہ کیا،لیکن انہوں نے محبان
اردوکوواپس کرناگوارابھی نہ سمجھا،اس لئے انہوں نے اپنے مقامی ٹی وی چینل
میں اردوخبریں جاری کروادیں،جومحبان اردوکرنول
کے لئے ایک بہت بڑاتحفہ
سمجھاگیا،کیوں کہ اکثرمسلم خواتین تلگوزبان سے ناواقف تھیں، خبریں
سمجھنادشوارتھا،یہ خبریں اب تک جاری ہیں۔دیکھتے ہی دیکھتے عام انتخابات ختم
ہوگئے اورتلگودیشم پارٹی کے بجائے کانگریس حکومت اقتدارسنبھالی،جس سے
دوبارہ مسٹرکے ای پربھاکرکے پاس جانے کاراستہ بندہوگیا۔کالج کے قیام کے لئے
دسمبر؍2009ء میں حکومت سے نمائندگی کی گئی اورکافی حدتک امیدبھی تھی،لیکن
چندخفیہ لوگوں کی وجہ سے وہ امیدناکامی میں تبدیل ہوگئی۔2011ء میں بہی
خواہوں کے مشورہ پرچندمتحرک لوگوں کواس تحریک میں شامل کرلیاگیا،جس میں
کنوینررائلسیمااردوایجوکیشنل کمیٹی جناب بی شمس الدین
صاحب،صدررائلسیماپکارکمیٹی کرنول جناب نظیراحمدصاحب اورمعتمدجناب محمدیونس
صاحب شامل ہیں،ان کے علاوہ چندمقامی رضاکارانہ تنظیموں کابھی تعاون حاصل
کیاگیا،جن کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔جس پر یہ کوشش کامیاب ہوگئی،حکومت کی
جانب سے کالج کی تعمیرکے لئے پروسیڈنگس جاری کرتے ہوئے ایک کروڑروپئے
منظورکئے گئے،حوصلے کچھ بلنددہوئے،محبان اردومیں مسرت کی لہرپائی گئی،اس
وقت کے رکن اسمبلی مسٹرٹی جی وینکٹیش نے گورنمنٹ اردوبائزہائی اسکول کے
احاطہ میں9؍جولائی 2012ء کوسنگ بنیادبھی ڈالا،جنوری2014ء میں تعمیری کام
مکمل کرلیاگیا،تعلیمی سال2014-15سے کالج کے آغازکا اردووتلگواخبارات میں
اطلاع بھی دی۔لیکن عمارت بورڈآف انٹرمیڈیٹ کے حوالہ نہیں کی گئی،اردومیڈیم
جونیئرکالج کے لئے تعمیرکردہ شاندارعمارت کودیکھتے ہوئے سرکاری ضلعی افسروں
کی نیتیں بدل گئیں،اس عمارت میں مرکزی حکومت کی ماڈل اسکول قائم کرنے کی
افواہیں سماج میں گشت کرنے لگیں،تقریبایہ صحیح بھی تھیں،چندگندم نماجوفروش
لوگ بھی کالج کے تعلق سے سماج میں افواہیں پھیلانے لگے،جس کے باعث دوبارہ
ہماری تشویش میں اضافہ ہوا۔مئی2014ء میں دسویں جماعت کے نتائج کااعلان
کیاگیا، طلباء کی نگاہیں اردومیڈیم کالج کی طرف لگی رہیں،لیکن ادھرابھی نئی
کالج میں داخلہ کے لئے کمیشنربورڈآف انٹرمیڈیٹ ایجوکیشن آندھراپردیش
مسٹرآدھرسنہاکی اجازت تودرکنارعمارت بھی حاصل نہیں کی جاسکی۔حالت نازک
پرشبہ کرتے ہوئے حسب معمول سینکڑوں طلباء قدیم کالجس کی طرف رخ کرنے
لگے،کیوں کہ تأخیرپر وہاں بھی نشستیں پرہونے کے خدشات تھے،اندیشہ تھاکہ
تمام اردومیڈیم طلباء قدیم کالجس میں داخلہ لے لیں اور کالج ہذا میں تعلیمی
سال 2014-15سے تعلیم کا آغازنہ ہوسکے۔ انجمن ترقئ اردوکرنول
اوررائلسیماپکارکمیٹی کے ذمہ داران نے قانون کوبالائے طاق رکھتے ہوئے کالج
کے بیرونی حصہ میں بیٹھکرطلباء میں داخلہ فارمس کی تقسیم شروع کردی،جس سے
145طلباء نے داخلہ فارمس حاصل کیا، 120طلباء نے داخلہ حاصل کیا۔4؍جون
کوداخلہ کی قانونااجازت حاصل ہوئی،5؍جون کوڈسٹرکٹ اوکیشنل ایجوکیشنل
آفسرDVEOکرنول محترمہ شالابائی نے کالج کے سامنے موجودایک پیپل کے درخت کے
سائے میں بیٹھکرقانوناداخلوں کاآغازکردیا،کیوں کہ عمارت کوقفل
لگاہواتھا۔دوسرے دن کئی اردو،تلگواخبارات اورٹی وی چینلوں میں اس کی
خبرشائع کی گئی،اخبارات میں اطلاع دیکھتے ہی6؍جون کو کانٹراکٹرنے عمارت
کومتعلقہ عہدیداران کے حوالہ کیا،حکومت کی جانب سے داخلوں کی اجازت ملنے
اورعمارت کوبورڈکے حوالہ کرنے پر سکون کی سانس ملی ،طلباء واولیائے طلباء
میں اعتمادپایاگیا۔23؍جون کوعہدیداروں نے کالج کے لئے پرنسپال روانہ
کیا،جبکہ تدریسی عملہ کاکوئی پتہ نہیں تھا،جس سے مخالفین کوافواہیں پھیلانے
میں مددملی،جس پرداخلہ حاصل کردہ 32طلباء نے اپناداخلہ واپس لے
لیا،88طلباء باقی رہ گئے تھے،طلباء کی دلچسپی کومدنظررکھتے ہوئے
یکم؍جولائی2014ء سے کلاسس کاآغازکردیاگیا،جس کے لئے رضاکارانہ اساتذۂ کرام
کی مفت خدمات حاصل کی جارہی ہیں۔کالج کے قیام میں ڈسٹرکٹ اوکیشنل ایجوکیشنل
آفسرDVEOکرنول محترمہ شالابائی اورڈپٹی ڈسٹرکٹ اوکیشنل ایجوکیشنل
آفسرمسٹروینکٹ راؤ صاحب کااہم کرداررہاہے،جومحبان اردوکرنول پرایک احسان
ہے۔14؍آگست کوحکومت کی جانب سے کالج کاآن لائن کوڈCodeجاری کیاگیا،جس سے
طلباء کے آن لائن داخلے مکمل کئے جاسکے،اب طلباء کا تعلیمی سال بھی خطرہ سے
باہرہوگیااورطلباء حکومت کی ذمہ داری میںآگئے۔اب کالج میں بنیادی سہولیات
کابھی فقدان تھا۔شہرکے چندمعززین کواس کی اطلاع دی گئی،جس پرچندلوگوں نے
اپنی جانب سے اشیائے ضروریہ فراہم کیا۔جس میں سابق رکن ریاستی حج کمیٹی
جناب ایم محمودپاشاہ صاحب،صفاء بیت المال کرنول کے ذمہ داران اورانورواچ
کمپنی کرنول کے مالکین قابل ذکرہیں۔ابھی کالج کے لئے کئی اشیاء کی سخت
ضرورت ہے۔انجمن ترقئ اردوکرنول کی جانب سے محبان اردواورقوم کے بہی خواہوں
سے اپیل کی جاتی ہے کہ وہ کالج کامعائنہ کرتے ہوئے کالج کی ترقی کے لئے حتی
الامکان تعاون کریں۔